معارف اسلامی اور عالم اسلام کی اہم خبری‏ں

محمد بن سلمان اپنی پسند کی وہابیت کی بنیاد رکھنے کے درپے؛ کیا وہابیت کا نیا ورژن آرہا ہے؟

محمد بن سلمان اپنی پسند کی وہابیت کی بنیاد رکھنے کے درپے؛ کیا وہابیت کا نیا ورژن آرہا ہے؟

محمد بن سلمان اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور کم خرچ نیز بہت کامیاب بادشاہت کے حصول کے لئے اپنی مطلوبہ وہابیت کو منظم کررہا ہے۔

ابلاغ: سعودی حکومت کی داخلی سیاست میں دین کا باہم ربط اور حکومت آل سعود اور آل الشیخ کی صورت میں سنہ 1158 ہجری سے قائم ہے۔ آل سعود کے تشدد پسندانہ اور دقیانونسی اصول ہر نئی بادشاہت میں اعتدال، اصلاح اور تبدیلی کی جانب بڑھتے آئے ہیں اور وہابی فرقہ ـ جس کو ایک سیاسی / استعماری / درباری فرقہ کہنا زیادہ مناسب ہے ـ ایک اعتقادی یا فقہی فرقے سے آل سعود کی حکمرانی کا راستہ ہموار کرنے والے ادارے (اور ربڑ اسٹیمپ) میں بدل چکا ہے۔ 

بایں وجود وہابیت کی جڑیں آج بھی سعودی عرب کی داخلی سیاست میں گہری اور مستحکم ہیں تاہم محمد بن سلمان کے ولیعہد بننے کے بعد آج اس فرقے کو مختلف چیلنجوں کا سمانا ہے۔ محمد بن سلمان کی فردی خصوصیات اور عادات و اطوار کے پیش نظر اور معاشرت اور قومی سلامتی کے حوالے سے اس کی پالیسیاں ویسے ہی بہت سوں کے لئے فکرمندی کا سبب ہوئی تھیں، لیکن چونکہ وہابیت کے لئے بھی اس کے اپنے خاص نظریات ہیں جن کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ وہابیت کے لئے اس کی طرف سے پیدا کردہ مسائل بجائے خود بہت اہم ہیں۔ 

آل سعود کی تیسری حکومت کے جزیرہ نمائے عرب پر مسلط ہونے کے آٹھ عشرے گذر رہے ہیں اور اب محمد بن سلمان اس حکومت کی سماجی و سیاسی تعمیر نو پر زور دے رہا ہے۔ وہ سرکش وہابی فرقے میں اصلاح کرکے ایسا مطلوبہ نسخہ (Version) منظم کرنے کے درپے ہے جو اس کے مقاصد کے حصول کے لئے مفید ہو۔ یہاں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ "محمد بن سلمان کے نزدیک وہابیت کے مطلوبہ نسخے کی خصوصیات کیا ہیں؟ 

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

حافظ سعید کو ایم پی او کے تحت نظربند رکھا جائے گا

حافظ سعید کو ایم پی او کے تحت نظربند رکھا جائے گا

پنجاب حکومت انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے دیگر چارساتھیوں کی نظربندی میں توسیع کےلیے دی گئی درخواست سے دست بردار ہوگئی۔

ابلاغ کے مطابق حافظ سعید سمیت پانچوں رہنماؤں کی نظربندی جاری رہے گی تاہم یہ نظر بندی مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت ہو گی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل کی صدارت میں فیڈرل ریویو بورڈ کا سیشن ہوا جو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست کی سماعت کررہا ہے۔

پنجاب کی وزارت داخلہ کے ایک سیکشن افسر نے بورڈ کو آگاہ کیا کہ حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت حافظ سعید کی نظربندی کے لیے جاری نوٹی فیکیشن کی توسیع نہیں کی اور اس درخواست سے دست بردار ہونا چاہتی ہے۔

صوبائی حکومت نے حافظ سعید کی نظر بندی کی توسیع کے لیے پانچویں مرتبہ درخواست دی تھی تاہم انھیں رواں ماہ کے آخر تک موجودہ آرڈر کے تحت ہی نظربند رکھا جائے گا۔

دوسری جانب حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے ایم پی او کے تحت اپنی نظر بندی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھی ہے۔

یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے رواں سال 31 جنوری کو حافظ سعید کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1977 کے سیکشن 11-ای ای ای (1) کے تحت نظر بند کیا تھا۔

جماعت الدعوہ کے سربراہ پر بھارت اور امریکا کی جانب سے 2008 میں ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا جہاں 166 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس میں 6 امریکی بھی شامل تھے لیکن انھوں نے مسلسل ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 2012 میں امریکا نے ان حملوں میں حافظ سعید کےمبینہ کردار کے باعث ان کی انعامی رقم دس ملین ڈالر مقرر کی تھی۔

حکومت پنجاب نے گزشتہ ماہ بھی حافظ سعید کی نظر بندی کو ختم کرنے کی مخالفت کی تھی۔


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰

آداب اسلامی و نظام معاشرت الهی_1

آداب و نظام جامعه اسلامی معاشرت

و آن مشتمل بر چند باب است‏1- باب اول در لزوم معاشرت با مردم از طریق اداى امانت، اقامه شهادت و راستگویى، همچنین در استحباب عیادت مریض و شرکت در تشییع جنازه، و خوشرفتارى نسبت به همسایگان و خواندن نماز در مسجد

1-[1] معاویة بن وهب گوید: به امام صادق (ع) عرض کردم: با بستگان و سایر مردمى که با آنان معاشرت داریم چگونه رفتار کنیم؟

امام فرمود: امانت را به آنان برگردانید، و (به حق) شهادت دهید، چه به نفع آنان باشد یا به ضررشان و از بیماران آنها عیادت کنید، و در تشییع جنازه مردگانشان شرکت نمایید.

2-[2] ابى اسامه زید شحّام گوید: امام صادق (ع) به من فرمود: به آنان که از من اطاعت و به سخنانم عمل مى‏کنند سلام برسان، و به آنها بگو: شما را به تقواى خداى عز و جل، و پرهیزگارى در دین، و کوشش در راه خدا، و راستى در گفتار، و برگرداندن امانت به صاحبانش، و سجده طولانى، و خوشرفتارى نسبت به همسایگان سفارش مى‏کنم، زیرا حضرت محمد (ص) به همین منظور مبعوث شده‏

است. و به کسانى که به شما اعتماد مى‏کنند چه نیکوکار باشند یا بدکار، امانت را برگردانید زیرا رسول خدا (ص) حتى به اداى سوزن و نخ سوزن [که ظاهرا کم ارزش مى‏باشد] فرمان داده است، صله رحم به جا آورید و در تشییع جنازه شرکت کنید و به عیادت بیمار بروید و اداى حقوق نمایید زیرا به کسى از شما مى‏توان جعفرى مذهب گفت که در دینش متّقى، و درست گفتار و امانتدار و با مردم خوشخو باشد، و چنین شخصى با این گونه کارهایش مرا مسرور مى‏سازد، و این است روش و آیین جعفرى.

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

ارتقاء توان دفاعی برای مقابله با رژیم فاسد آمریکا ادامه خواهد یافت

سردار جزایری سخنگوی ارشد نیروهای مسلح کشورمان طی سخنانی گفت: نیروهای مسلح جمهوری اسلامی ایران امروز مصمم تر و باانگیزه تر از همیشه مسیر توسعه و ارتقاء توان دفاعی را ادامه خواهد داد.

ابلاغ، سخنگوی ارشد نیروهای مسلح کشورمان در پاسخ به اظهارات وقیحانه ترامپ افزود: از زبان نیروهای مسلح و آحاد مردم بصیر ایران اسلامی به دولت فاسد و شرور آمریکا می گوییم که ارتقاء توان دفاعی کشور برای مقابله با رژیم فاسد آمریکا مسیر توسعه بی وقفه خود را با انگیزه تر و مصمم تر از گذشته ادامه خواهد داد و نیز لحظه ای در دفاع از مظلومان در جای جای جغرافیای جهان ولو در ایالات متحده آمریکا و به خصوص مردم مظلوم منطقه غرب آسیا دریغ نخواهیم کرد.

سخنگوی ارشد نیروهای مسلح تاکید کرد: سپاه پاسداران انقلاب اسلامی امروز عزیز تر و پرتوان تر از هر زمان دیگر رویاهای کثیف سردمداران آمریکا را یکی پس از دیگری آشفته میکند و در ادامه این راه حرف های ناگفته فراوانی هست که در وقت خود جلوه های بیرونی آن را دولت ترامپ مشاهده خواهد کرد.تسنیم


۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

شمالی افغانستان کے علاقے "میرزا ولنگ" پر دوبارہ طالبان کا قبضہ

شمالی افغانستان کے علاقے "میرزا ولنگ" پر دوبارہ طالبان کا قبضہ

شمالی افغانستان کے علاقے میرزا ولنگ پر ایک بار پھر طالبان نے قبضہ کرکے افغان حکومت کو بے دخل کردیا ہے

ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق شمالی افغانستان میزاولنگ پر ایک بار پھر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔

صوبہ سرپل کے عوام کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات میرزاولنگ پر طالبان نے قبضہ کرکے حکومت کے مکمل طور پر بے دخل کردیا ہے...

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

اہل تشیع کے ۲۲ مراجع نے اہل سنت کے مقدسات کی بے احترامی کو حرام قرار دیا، آپ نے کیا کیا؟

ابلاغ:مصر کی معروف یونیورسٹی الازہر کے سیکرٹری ڈاکٹر عباس شومان کی شیعہ مخالف تازہ ہرزہ سرائیوں کے جواب میں مصر کی معروف شخصیت سید طاہر الہاشمی نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔
سید طاہر الہاشمی نے کہا ہے کہ ہمارے ۲۲ شیعہ مراجع نے اپنے فتووں میں اہل سنت کے دینی مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیا ہے جبکہ شرپسند افراد شیعوں کے کسی ایک مثبت اقدام کی طرف اشارہ تک   نہیں کرتے!
انہوں نے زور دے کر کہا: شیعوں کے درمیان کوئی ایک شخص ایسا نظر نہیں آئے گا جو صحابہ اور ازواج     

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

ذکر امام حسین علیہ السلام کی ضرورت و اہمیت؛ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی نظر میں

"بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔"

ابلاغ: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔ (الاحزاب: 33)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا پر مادیت کا غلبہ ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں صرف لوگوں کی عملی اور اخلاقی زندگیاں ہی متاثر نہیں ہورہیں بلکہ لوگوں کے عقائد اور افکار و نظریات تک بھی متاثر ہورہے ہیں۔ جب انسان کے فکر، عقیدہ اور نظریہ میں مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے تو اس عقیدے سے ہر وہ پہلو جس کا تعلق روحانیت اور روحانی اقدار و روایات کے ساتھ ہوتا ہے، وہ پہلو کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ شخص جدیدیت کی سوچ Modernistic Approach کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ جدیدیت بھی تجدد پسندی کی شکل میں ہوتی ہے جس میں مادیت (Materialism)، جدیدیت (Modernism) اور لامذہبیت (Secularism) تینوں اکٹھی ہوتی ہیں۔ ان تینوں کا اختلاط ہماری ایمانی زندگی کو متاثر کررہا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔

جدیدیت (Modrenism) اور ماڈرن ہونے کے تقاضوں Modernistic Approach کو پورا کرنے میں اصلاً خرابی نہیں ہے۔ لیکن جب جدیدیت (Modernism) نظریہ اور عقیدہ بن جاتی ہے تو پھر اس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

اسی طرح زندگی کی Secular ضروریات بھی ہیں، جن کا پورا کرنا بھی اشد ضروری ہے، اس لئے کہ دین Secular ضروریات کو نظر انداز نہیں کرتا۔ دین صرف مذہبی پہلو (Religious Aspects) کی تکمیل نہیں کرتا بلکہ دنیاوی پہلو Secular Aspects سے بھی مخاطب ہوتا ہے۔ مگر جب Secularism اپنی انتہاء پر چلی جائے تو وہ لامذہبیت میں بدل جاتی ہے، جس سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔

اسی طرح مادیت (Materialism) ہے۔ ہمارا جسم مادہ ہے اور روح کے اوپر ایک غلاف کی مانند ہے۔ روح اور مادہ دونوں کے امتزاج سے انسان بنتا ہے۔ روح سے روحانیت جنم لیتی ہے جبکہ مادہ سے مادیت جنم لیتی ہے۔ اصلاً مادیت بھی بری چیز نہیں مگر مادیت جب فکر، فلسفہ، نظریہ اور عقیدہ بنتی ہے یعنی ہمارے افکار اور عقیدے پر اثر انداز ہوتی ہے تو پھر یہ بھی فتنہ بن جاتی ہے۔

جس سوچ، عقیدے اور نظریہ میں جس بھی دور میں یہ تینوں چیزیں ’’جدیدیت، لامذہبیت اور مادیت‘‘ اکٹھی ہوجاتی ہیں تو وہاں اعتقادی، اخلاقی اور ایمانی اعتبار سے بہت بڑا فتنہ وجود میں آتا ہے۔ آج مسلمانوں کی اعتقادی، روحانی، ایمانی، اخلاقی، عملی زندگی اس فتنے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ مادی ضرورتوں، جدید دور کے جملہ تقاضوں اور غیر مذہبی گوشہ ہائے حیات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہماری مرکزیت ایمان، روحانیت، قرآن و سنت اور روحانی اقدار پر قائم رہنی چاہئے، اس سے اعتدال قائم ہوتا ہے۔

جس طرح روح اور جسم کے مرکب کو انسان کہتے ہیں، خالی جسم کو بھی انسان نہیں کہتے، فقط روح ہو جسم نہ ہو، تب بھی انسان نہیں کہتے۔

اسی طرح روحانی اور مادی (دنیوی) دونوں تقاضے بتمام وکمال اکٹھے ہوں تو دین اور مذہب کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور انسان صحیح ڈگر پر رہتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک تقاضا بھی چھوٹ جائے یا کمزور پڑجائے تو انسان اپنا توازن کھودیتا ہے اور سوچ، فکر، عقیدہ اور عمل میں غیر متوازن ہوجاتا ہے۔

اسی لئے اللہ رب العزت نے امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا: اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.
’’ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو ‘‘۔ (البقرة، 2: 143)

اگر امت مسلمہ انسانیت کی قیادت کرنا چاہتی ہے تو اسے امت وسط ہونا چاہئے۔ اعتدال پر قائم رہنے والی ایسی امت بننا ہوگا جو اپنا توازن نہ کھوئے۔
مادیت، لامذہبیت اور جدیدیت کے اثرات

مادیت (Materialism) لامذہبیت (Secularism) اور جدیدیت (Modernism) اصلاً ان تینوں چیزوں کو میں برا نہیں سمجھتا مگر جب ان تینوں چیزوں کا امتزاج برے طریق سے ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں عقائد میں تغیر آتا ہے اور ایسا ہوتا ہوا ہم گذشتہ کئی دھائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گا اور یہ الفاظ میرے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ مجھے بطور نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ’’بیٹے! گھر، لباس، گاڑی، گھڑی اور ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء جو جو چیز بھی مارکیٹ میں نئی آئے، استفادہ و استعمال کے لئے لے لیں، کسی شے کے نئے ماڈل لینے میں گناہ اور حرج نہیں مگر صرف عقیدہ نیا نہ لینا، عقیدہ وہی رکھنا جو پرانے لوگوں کا تھا‘‘۔...

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا


برطانیہ کی یمن کے متاثرین کیلئے 137 ملین پاونڈ کی امداد اور سعودیہ کو اسی یمن کی تباہی کیلئے 4 ارب پاونڈ کے اسلحے کی فروخت پر مبنی ایک چشم گشا رپورٹ ملاحظہ فرمائیے۔

ابلاغ: برطانوی حکومت کی سیکرٹری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ، پریتی پٹیل نے اعلامیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق برطانیہ بیرونی امداد کی مد میں یمن جنگ کے متاثرین کیلئے مزید (37ملین) سینتیس ملین پاونڈ کی امدادی رقم ارسال کرے گا جس کے ساتھ ہی یمن کیلئے برطانیہ کی امداد (137 ملین) ایک سو سینتیس ملین پاونڈ تک پہنچ جائے گی۔

منافقت کی انتہا دیکھئے کہ اسی برطانیہ نے سعودی عرب کو یمن پر ڈھائی سال سے جاری جارحیت کیلئے چار ارب پاونڈ کا اسلحہ فروخت کیا ہے جس میں لڑاکا طیارے، میزائل، اور ممنوعہ کلسٹر بم بھی شامل ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مارچ 2015 سے لیکر ابتک سعودی طیاروں نے یمنی شہریوں پر کئی لاکھ کی تعداد میں برطانوی ساختہ ممنوعہ کلسٹر بم برسائے ہیں جبکہ کلسٹر بموں کی فروخت اور استعمال پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق پابندی ہے اور 119 ممالک کی  حکومتوں نے اپنی افواج پر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ آل سعود کو اسلحہ فروخت کرنے سے یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بڑھ جانے کی وجہ بنے ہیں نیز عالمی برادری سے یمن کو ملنے والی چند ملین ڈالرز کی امداد کے باوجود، کچھ ممالک یمن کے مخالفین کو اسلحہ فروخت کرکے اس انسانی سبوتاژ میں برابر کے شریک ہیں۔

تازہ ترین اطلاع کے مطابق برطانیہ سرکاری طور پر یمن پر جارحیت کرنے والے اتحاد کا حصہ بن چکا ہے اور یمن سے ملحقہ ساحلوں پر اپنی عسکری قوت میں اضافہ کررہا ہے۔

ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق برطانوی اور سعودی فوجی افسران نیز انٹیلجنس اور لاجسٹک سپورٹ کے عہدہ داران اسی مہینے ستمبر 2017 کے اوائل میں یمن کے ساحلی شہر عدن سے ملحقہ ساحلوں پر پہنچے تھے اور جارح اتحادی افواج کی متعدد نیول پوزیشنز کا جائزہ لیا اور ساتھ ہی یمن کی بحری دفاعی طاقت، اور عدن، ابیان، تعز اور لاہج کے ساحلوں پر یمنی کوسٹ گارڈز کی پوزیشنز سے متعلق انٹیلجنس معلومات اکٹھی کیں۔ 

یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ برطانیہ یمن کے ساحلوں پر اپنی عسکری طاقت میں مسلسل 4 ماہ سے اضافہ کر رہا ہے۔ اور ان چار ماہ کے دوران برطانوی انٹیلجنس افسران نے متعدد بار، بئرعلی،  شبوا، حضر موت، خانفر اور اھور کی ساحلی پٹی کا بھی دورہ کیا اور اس دوران اپاچی ہیلی کاپٹرز سے فضائی اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے ذریعے زمینی مدد فراہم کی جاتی رہی۔   

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ گزشتہ ہفتے برطانوی اور سعودی فوجی افسران نے عدن کے نیول بیس کا دورہ کیا ہے اور وہاں پر موجود القاعدہ قیادت جو کہ سعودی پشت پناہی سے یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے ساتھ متحارب ہے، اور جارح افواج کی نیول کمانڈ سے مختلف اسٹریٹیجک امور طے پائے ہیں۔  

  

 ایک اور اہم مقصد اس دورے کا یہ تھا کہ تمام موجود اسلحے کی فہرست بندی کی جائے، اور اس میں روسی ساختہ اسلحے کی علیحدہ فہرست تیار کی جائے کیونکہ برطانیہ اور سعودی عرب نے یہ طے کیا ہے کہ روسی ساختہ اسلحے کو برطانوی اسلحے سے تبدیل کردیا جائے اور اپنی جارح اتحادی افواج، بشمول بحری فوج، کرائے کے کولمبین فوجی اور القاعدہ کے دھشت گرد جو کہ یمنی افواج اور عوامی رضاکار فورس سے لڑ رہے ہیں، سے باقی ماندہ روسی اسلحہ لیکر اس کی جگہ برطانوی اسلحہ دیا جائے۔ یہ بھی برطانیہ کی سعودیہ کو مزید اسلحہ فروخت کرنے کی ایک کوشش ہے جس کے نتیجے میں مزید قتل و غارت، مزید بچوں اور عورتوں کی ہلاکت اور مزید خانماں بربادی۔

 ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سعودی اور برطانوی افواج، روس کو عدن کے ساحلوں پر آنے سے روکنا چاہتی ہیں جو عدن پر ایک فوجی بیس قائم کرنا چاہتا ہے۔عدن کے ساحل پر موجود اتحادی جارح افواج کی بحریہ کے کمانڈر میجر جنرل عبدالله سالم ال نخعی نے بھی اس علاقے میں بحریہ کی قوت کو بڑھانے کیلئے سعودی اور برطانوی منصوبے کا اعتراف کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان ڈھائی سالوں کے دوران یمن کے خلاف سعودی جارحیت میں  پندرہ ہزار سے زیادہ یمنی شہری جاں بحق ہوگئے ہیں اور تیس ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں 2248 خواتین اور 2773 بچے شامل ہیں اس کے علاوہ پینتیس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں نیز وبائی امراض خصوصا ہیضے کی وبا پھیلنے اور اسپتالوں پر سعودی طیاروں کے حملوں اور طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مزید ہزاروں بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچ چکا ہے۔ سعودی طیاروں نے اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارات پر بے تحاشہ بم برسائے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سعودی بمباری اور یمن کا محاصرہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے، کیوں کہ اس بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں، ملک میں پھوٹنے والی ہیضے کی وبا سے سات لاکھ  لوگ متاثر ہوچکے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے اور اس کی بنیادی وجہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے کیونکہ سعودی و اتحادی طیاروں نے بمباری کر کے آبی ذخائر تباہ کردیے ہیں، نیز ایک کروڑ ستر لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں جن میں ستر لاکھ افراد کو شدید قحط کی صورتحال کا سامنا ہے۔  آبی ذخائر پر بمباری کی وجہ سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یمنی شہریوں کو پینے کے پانی کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے یمن ایک بہت بڑی اجتماعی قبر میں تبدیل ہورہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کی روک تھام کے لئے اور یمن میں ہونے والے انسانی جرائم کی تحقیقات کے لئے بین الاقوامی سطح پر اقدامات کریں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ کتاب ابی مخنف کا بیان

امام حسین علیہ السلام کی شہادت
ابلاغ:سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جب فقط تین یا چار ساتھی رہ گئے تو آپ نے اپنا یمنی لباس منگوایا جو مضبوط بناوٹ کا صاف و شفاف کپڑا تھا اسے آپ نے جا بجا سے پھاڑ دیا اور الٹ دیا تاکہ اسے کوئی غارت نہ کرے ۔[1] اور[2]اس بھری دوپہر میں آپ کافی دیر تک اپنی جگہ پر ٹھہرے رہے۔ 
دشمنوں کی فوج کا جو شخص بھی آپ تک آتا تھا وہ پلٹ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپ کے قتل کی ذمہ داری اور یہ عظیم گناہ اپنے سر پر لینا پسند نہیں کر رہا تھا۔ آخر کار مالک بن نسیربدّی کندی [3] آنحضرت کے قریب آیا اور تلوار سے آپ کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ برنس (ایک قسم کی ٹوپی جو آغاز اسلام میں پہنی جاتی تھی ) جو آپ کے سر پر تھی شگافتہ ہوگئی اور ضرب کا اثر آپ کے سر تک پہنچا اور آپ کے سر سے خون جاری ہوگیا ، برنس خون آلود ہوگئی، تو حسین علیہ السلام نے اس سے کہا :
’’لا أکلت بھا ولا شربت وحشرک اللّٰہ مع الظالمین‘‘ تجھے کھانا، پینا نصیب نہ ہو، اور اللہ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔ پھر آپ نے اس برنس کوالگ کیا اور ایک دوسری ٹوپی منگوا کر اسے پہنا اور اس پر عمامہ باندھا[4]۔
اسی طرح سیاہ ریشمی ٹوپی پر آپ نے عمامہ باندھا۔ آپ کے جسم پر ایک قمیص[5] یا ایک ریشمی جبہ تھا ،آپ کی ڈاڑھی خضاب سے رنگین تھی، اس حال میں آپ میدان جنگ میں آئے اورشیربیشۂ شجاعت جیسا قتال شروع کیا، دشمنوں کے ہر تیر سے خود کو ماہرانہ انداز میں بچا رہے تھے، دشمن کی ہر کمی اور ضعف سے فائدہ اٹھارہے تھے اور اسے غنیمت و فرصت شمار کرتے ہوئے اور دشمن پر بڑا زبردست حملہ کر رہے تھے[6]۔ 
اسی دوران شمراہل کوفہ کے دس پیدلوں کے ساتھ حسین علیہ السلام کے خیموں کی طرف بڑھنے لگا جن میں آپ کے اثاثہ اور گھر والے تھے۔ آپ ان لوگوں کی طرف بڑھے تو ان لوگوں نے آپ اور آپ کے گھر والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔ یہ وہ موقع تھا جب آپ نے فرمایا:
’’ ویلکم !ان لم یکن لکم دین ،وکنتم لاتخافون یوم المعاد فکونوا فی أمردنیاکم أحراراً ذوی أحساب ! امنعوارحلی وأھلی من طغامکم وجھالکم !‘‘وائے ہو تم پر! اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور تمہیں قیامت کا خوف نہیں ہے توکم ازکم دنیاوی امور میں تو اپنی شرافت اور خاندانی آبرو کا لحاظ رکھو ؛ ان اراذل و اوباشوں کو ہمارے خیموں اور گھر والوں سے دور کرو۔
یہ سن کرشمر بن ذی الجوشن بولا : اے فرزند فاطمہ یہ تمہاراحق ہے! یہ کہہ کر اس نے آپ پر حملہ کردیا، حسین (علیہ السلام) نے بھی ان لوگوں پر زبر دست حملہ کیا تووہ لوگ ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے پیچھے ہٹ گئے[7]۔ 
عبداللہ بن عمار بارقی[8] کابیان ہے: پھر پیدلوں کی فوج پر چپ و راست سے آپ نے زبردست حملہ کیا ؛پہلے آپ ان پر حملہ آور ہوئے جو داہنی طرف سے یلغار کررہے تھے اور ایسی تلوار چلائی کہ وہ خوف زدہ ہوکر بھاگ گھڑے ہوئے پھر بائیں جانب حملہ کیا یہاں تک وہ بھی خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔خداکی قسم میں نے کبھی ایسا ٹوٹا ہوا انسان نہیں دیکھا جس کے سارے اہل بیت، انصار اور ساتھی قتل کئے جا چکے ہوں اس کا دل اتنا مستحکم، اس کا قلب اتنا مطمئن اور اپنے دشمن کے مقابلہ میں اس قدر شجاع ہو جتنے کہ حسین علیہ السلام تھے۔ خداکی قسم میں نے ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو ان کےجیسا نہیں دیکھا۔ اگرپیدل کی فوج ہوتی تھی تو چپ و راست سے ایسا ذلیل ورسوا ہو کے بھاگتی تھی جیسے شیر کو دیکھ کر ہرن بھاگتے ہیں[9]۔
اسی دوران عمر بن سعد، امام حسین علیہ السلام کے قریب آیا، اسی اثناء میں امام ؑ کی بہن زینب بنت فاطمہ علیھاالسلام خیمہ سے باہرنکلیں اورآواز دی : ’’یاعمر بن سعد ! أیقتل أبو عبداللّٰہ وأنت تنظر الیہ ‘‘ اے عمر بن سعد! کیاابو عبداللہ الحسین قتل کئے جارہے ہیں اور توکھڑا دیکھ رہا ہے۔ تو اس نے اپنا چہرہ ان کی طرف سے پھیرلیا[10] گویا میں عمر کے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے رخسار اور ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے [11]۔ادھر آپ دشمنوں کی فوج پر بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے ہوئے فرمارہے تھے :
’’ أعلی قتلی تحاثون؟ اما واللہ لا تقتلون بعدی عبدا من عباداللّٰہ أسخط علیکم لقتلہ منی !و أیم اللہ انی لأرجو أن یکرمنی اللّٰہ بھوا نکم ثم ینتقم لی منکم من حیث لا تشعرون  [12]أماواللّٰہ لو قد قتلتمونی لقد ألقی اللّٰہ بأسکم بینکم وسفک دمائکم ثم لا یرضی لکم حتی یضاعف لکم العذاب الألیم [13]!‘‘ کیا تم لوگ میرے قتل پر( لوگوں کو) بر انگیختہ کر رہے ہو ؟خدا کی قسم میرے بعد خدا تمہارے ہاتھوں کسی کے قتل پر اس حد تک غضبناک نہیں ہوگا جتنا میرے قتل پروہ تم سے غضبناک ہوگا ،خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ تمہارے ذلیل قرار دینے کی وجہ سے خدا مجھے صاحب عزت و کرامت قرار دے گا پھر تم سے ایسا انتقام لے گا کہ تم لوگ سمجھ بھی نہ پاؤ گے خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے مجھے قتل کردیا تو خدا تمہاری شرارتوں کو تمہارے ہی درمیان ڈال دے گا ، تمہارے خون تمہارے ہی ہاتھوں سے زمین پر بہا کریں گے اس پر بھی وہ تم سے راضی نہ ہوگا یہاں تک کہ درد ناک عذاب میں تمہارے لئے چند گُنا اضافہ کردے گا ۔
پھر پیدلوں کی فوج کے ہمراہ جس میں سنان بن انس نخعی ، خولی بن یزید اصبحی  [14]صالح بن وہب یزنی ، خشم بن عمرو جعفی اور عبدالرحمن جعفی [15] موجود تھے شمر ملعون امام حسین علیہ السلام کی طرف آگے بڑھا اور لوگوں کوامام حسین علیہ السلام کے قتل پر اُکسانے لگا تو ان لوگوں نے حسین علیہ السلام کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اسی اثنا ء میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آپ کے خاندان کاایک بچہ [16]میدان میں آنکلا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن زینب بنت علی (علیہماالسلام ) سے کہا:
’’احبسیہ‘‘ بہن اسے روکو، تو آپ کی بہن زینب بنت علی( علیہما السلام) نے روکنے کے لئے اس بچے کو پکڑا لیکن اس بچہ نے خود کو چھڑا لیا اور دوڑتے ہوئے جاکر خود کو حسین علیہ السلام پر گرادیا ۔اسی وقت بحر بن کعب نے ام حسین علیہ السلام پر تلوارچلائی تو اس بچہ نے کہا : ’’یابن الخبیثہ ! أ تقتل عمی‘‘ اے پلید عورت کے لڑکے ! کیا تومیرے چچا کوقتل کر رہا ہے [17]؟  تو اس نے تلوار سے اس بچہ پر وار کردیا۔ اس بچے نے اپنے ہاتھ کو سپر قرار دیا اور بچہ کا ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا تو اس بچے نے آواز دی:’’ یا أمتاہ‘‘ اے مادر گرامی مدد کیجیے۔ حسین علیہ السلام نے فوراً اسے سینے سے لگالیا اور فرمایا:
’’ یابن أخی [18] اصبر علی مانزل بک واحتسب فی ذالک الخیر ، فان اللّٰہ یلحقک بآبائک الصالحین برسول اللّٰہ وعلی بن أبی طالب و حمزۃ والحسن بن علی صلی اللّٰہ علیھم أجمعین‘‘[19]و[20] ’’اللھم امسک عنھم قطر السماء وامنعھم برکات الارض اللّٰھم فان متعتھم الی حین ففرقھم فرقاواجعلھم طرائق قدداً ولاترضی عنھم الولاۃ أبداً فانھم دعونا لینصرونا فعدوا علینا فقتلونا[21]‘‘ جان برادر! اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر نازل ہوئی اوراس کو راہ خدا میں خیر شمار کرو، کیونکہ خدا تم کو تمہارے صالح اور نیکو کار آباء و اجداد رسول خدا، علی بن ابیطالب ،حمزہ اور حسن بن علی، ان سب پر خدا کا درود و سلام ہو،کے ساتھ ملحق کرے گا ۔خدایا !آسمان سے بارش کو ان کے لئے روک دے اور زمین کی برکتوں سے انھیں محروم کردے! خدایا! اگر اپنی حکمت کی بنیاد پر تونے اب تک انھیں بہرہ مند کیاہے تواب ان کے درمیان جدائی اورپراکندگی قرار دے اور ان کے راستوں کو جدا جدا کردے اور ان کے حکمرانوں کو کبھی بھی ان سے راضی نہ رکھنا کیونکہ انھوں نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کریں لیکن ہم پر حملہ کردیااور ہمیں قتل کر دیا۔
پھر اس بھری دوپہر میں کافی دیر تک حسین علیہ السلام آستانۂ شہادت پر پڑے رہے کہ اگر دشمنوں میں سے کوئی بھی آپ کو قتل کرنا چاہتا تو قتل کردیتا لیکن ان میں سے ہر ایک اس عظیم گناہ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا تھا اور اسے دوسرے پر ڈال رہا تھا ۔ہر گروہ چاہ رہا تھا کہ دوسرا گروہ یہ کام انجام دے کہ اسی اثناء میں شمر چلّایا :وائے ہو تم لوگوں پر! اس مرد کے سلسلے میں کیا انتظار کررہے ہو، اسے قتل کرڈالو، تمہاری مائیں تمہارے غم میں بیٹھیں! اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ چاروں طرف سے دشمن آپ پر حملے کرنے لگے ۔
آخری لمحات
اب آپ پر چاروں طرف سے حملے ہونے لگے۔زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی بائیں ہتھیلی پر ایک ضرب لگائی [۲۲] اور ایک ضرب آپ کے شانے پر لگائی۔ یہ وہ موقع تھاجب آپ کے بیٹھنے کی تاب ختم ہوچکی تھی۔ آپ منہ کے بل زمین پرآئے اسی حال میں سنان بن انس نخعی آگے بڑھا اور آپ پر ایک نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں پیوست ہوگیا لیکن اب کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے نزدیک نہیں ہورہاتھا مگر یہ کہ شمر بن ذی الجوشن ہی آگے بڑھا اور اس خوف میں کہ کہیں کوئی دوسرا شخص حسین علیہ السلام کے سر کو امیر کے پاس نہ لے جائے؛ لہٰذا وہ آپ کی شہادت گاہ کے پاس آیا اورآپ کو ذبح کردیا اورآپ کے سر کو کاٹ ڈالا [۲۳]اور اسے خولی بن یزید اصبحی کی طرف پھینک دیا ۔
اب لباس اور اسباب لوٹنے کی نوبت آئی تو آپ کے جسم پر جو کچھ بھی تھا کوئی نہ کوئی لوٹ کر لے گیا۔ آپ کی اس یمانی چادر کو جسے قطیفہ[۲۴] کہاجاتا ہے قیس بن اشعث نے لے لیا[۲۵]۔  اسحاق بن حیوۃ بن حضرمی نے امام حسین علیہ السلام کی قمیص کو لوٹ لیا [۲۶]قبیلۂ بنی نہشل کے ایک شخص نے آپ کی تلوار لے لی، آپ کی نعلین کو ’’اسود اودی‘‘ نے اٹھا لیا۔آپ کے پاجامہ کو’’ بحر بن کعب ‘‘لے گیا[۲۷] اور آپ کو برہنہ چھوڑ دیا [۲۸]۔
.....................................................
[1] آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا : اگر آپ اس کے نیچے ایک چھوٹا سا کپڑاپہن لیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا:’’ ثوب مذلہ ولا ینبغی لی أن البسہ ‘‘ یہ ذلت ورسوائی کا لباس ہے اور میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اسے پہنوں۔ جب آپ شہید ہوگئے تو بحر بن کعب وہ یمنی لباس لوٹ کے لے گیا ۔(طبری ،ج۵،ص۴۵۱) ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شعیب نے محمد بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ بحر بن کعب کے دونوں ہاتھوں سے سردی میں پانی ٹپکتا تھا اور گرمی وہ بالکل سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتا تھا۔ (طبری ،ج۵،ص ۴۵۱) 
[2] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم سے یہ روایت کی ہے۔(طبری ،ج۵ ،ص ۴۵۱وارشاد، ص ۲۴۱) 
[3] یہ وہی شخص ہے جو راستے میں حر کے پاس ابن زیاد کا خط لے کر آیا تھا جس میں یہ لکھاتھا کہ حسین( علیہ السلام) کو بے آب وگیاہ صحرا میں اتارلو ؛امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے اس صحرا میں وارد ہونے کے ذیل میں اس کے احوال گزرچکے ہیں ۔
[4] وہ برنس ریشمی تھا ۔ مالک بن نسیر کندی آیا اور اسے اٹھا لے گیا، پھر جب اس کے بعد وہ اپنے گھر آیا تو اس برنس سے خون کو دھونا شروع کیا۔ اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا اور وہ سمجھ گئی تو بولی : نواسۂ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان لوٹ کر لا تا ہے اور میرے گھر میں داخل ہوتا ہے ! میرے پاس سے اسے فوراً نکال لے جا! اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ فقیر رہا یہاں تک کہ مر گیا۔ ( طبری، ج۵،ص ۴۴۸، ارشاد ،ص ۲۴۱) ارشاد میں شیخ مفید ؒ نے مالک بن یسر لکھا ہے۔ ہشام اپنے باپ محمد بن سائب سے اور وہ قاسم بن اصبغ بن نباتہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو اپنے لشکر میں حسین علیہ السلام کی جنگ کا گواہ ہے وہ کہتا ہے : جب حسین ؑ کے سارے سپاہی شہید کردئے گئے تو آپ نے گھوڑے پر سوار ہو کر فرات کا رخ کیا اور اپنے گھوڑے کو ایک ضرب لگائی ۔یہ دیکھ کر قبیلہ بنی آبان بن دارم کے ایک شخص نے کہا : وائے ہو تم پر ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہو جاؤ توان لوگوں نے اس کے حکم کی پیروی کی اور ان کے اور فرات کے درمیان حائل ہوگئے . اور’’ اباتی‘‘ نے ایک تیر چلا یا جو آپ کی ٹھڈی میں پیوست ہوگیا ۔امام حسین علیہ السلام نے اس تیر کو کھینچا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا دیں تو وہ خون سے بھر گئیں پھر آپ نے فرمایا :’’ اللّٰھم انی أشکو الیک ما یفعل بابن بنت نبیک،اللّٰھم اظمہ‘‘خدا یا! میں تیری بارگاہ میں اس چیز کی شکایت کرتا ہوں جو تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خدایا! اسے ہمیشہ پیاسا رکھ۔ قاسم بن اصبغ کا بیان ہے : میں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ اس کے پاس دودھ سے بھرے بڑے بڑے برتن اور کوزوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے شربت رکھے ہوئے تھے لیکن وہ کہہ رہا تھا : وائے ہو تم لوگوں پر مجھے پانی پلا ؤ ،پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے پھر بڑا برتن اور کوزہ لا یا جاتا اور وہ سب پی جاتا اور جب سب پی جاتا تو پھر تھوڑی ہی دیر میں فریاد کرنے لگتا اور پھر کہنے لگتا : وائے ہو تم لوگوں پر ! مجھے پانی پلا ؤ پیاس مجھے مارے ڈال رہی ہے، خدا کی قسم تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کا پیٹ اونٹ کے پیٹ کی طرح پھٹ گیا۔ ابو الفرج نے اسے ابو مخنف کے حوالہ سے لکھا ہے۔(ص ۷۸، طبع نجف) 
ہشام کا بیان ہے : مجھ سے عمروبن شمر نے جابر جعفی کے حوالے سے روایت کی ہے کہ ان کا بیان ہے : حسین ؑ کی پیاس شدید سے شدید تر ہو رہی تھی لہٰذاآپ فرات کے نزدیک پانی کی غرض سے آئے لیکن ادھر سے حصین بن تمیم نے ایک تیر چلا یا جو آپ کے دہن مبارک پر لگا ، آپ نے اپنے دہن سے اس خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا :’’ اللّٰھم أحصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تذرعلی الارض منھم أحداً‘‘(طبری ،ج ۵،ص۴۴۹و۰ ۴۵) خدا یا!ان کی تعدادکو کم کردے ،انھیں نابود کردے اور ان میں سے کسی ایک کوروئے زمین پرباقی نہ رکھ ۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج۵،ص۴۴۷و ۴۴۸ )
[5] ابو مخنف نے کہا:مجھ سے صقعب بن زہیرنے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج۵،ص۴۵۲) 
[6] ابومخنف نے حجاج سے اور اس نے عبداللہ بن عمار بارقی سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری، ج۵،ص۴۵۲)
[7] یہ ابو مخنف کی روایت میں ہے۔( طبری ،ج۵،ص۴۵۰ ) ابوالفرج نے بھی اس کی روایت کی ہے۔( ص۷۹)
[8] یہی شخص امیرالمومنین علیہ السلا م کی اس خبر کا بھی راوی ہے جس میں آپ ۲۶ھ ؁ میں صفین کی طرف جارہے تھے تو فرات پر پل بنانے کی بات ہوئی تھی۔( طبری ،ج۵،ص ۵۶۵)
[9] روایت میں معزیٰ اور ذئب استعمال ہوا ہے جس کے معنی گلہء گوسفند اور بھیڑئیے کے ہیں عرب تہذیب اور کلچر میں کسی کی شجاعت ثابت کرنے کی یہ بہترین مثال ہے لیکن ہماری ثقافت میں بزرگ شخصیتوں کو بھیڑئیے سے تعبیر کرنا ان کی توہین ہے اور قاری پر بھی گراں ہے لہٰذا محققین کرام نے مترجمین کو اس بات کی پوری اجازت دی ہے کہ وہ تشبیہات کے ترجمہ میں اپنی تہذیب اور کلچر (culture)کا پورا پورا لحاظ رکھیں ، اسی بنیاد پر ترجمہ میں شیر اور ہرن استعمال کیا گیا ہے جو شجاعت اور خوف کی تشبیہات ہیں۔ (مترجم )
[10] شیخ مفید ؒ نے ارشاد میں یہ روایت بیان کی ہے۔( الارشاد ،ص۲۴۲، طبع نجف )
[11] یہ روایت’’ حجاج ‘‘سے ہے۔ اس نے اسے عبداللہ بن عمار بارقی سے نقل کیا ہے۔( طبری ،ج۵،ص ۴۵۱) شیخ مفید ؒ نے ارشاد میں حمید بن مسلم سے روایت کی ہے۔( ص ۲۴۱ )
[12] امام علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور کچھ زمانے کے بعد مختار نے قیام کیا اور اپنی سپاہ کی ایک فرد ابا عمرہ کو عمربن سعد کی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ اسے لے کرآ۔ وہ گیا یہاں تک کہ اس کے پاس وارد ہوا اور کہا : امیر نے تم کو طلب کیا ہے۔ عمر بن سعد اٹھا لیکن اپنے جبہ ہی میں پھنس گیا تو ابو عمرہ نے اپنی تلوار سے اس پر وار کرکے اسے قتل کر دیا اور اس کے سر کو اپنی قبا کے نچلے حصے میں رکھا اور اس کو مختار کے سامنے لاکر پیش کردیا ۔
حفص بن عمر بن سعد، مختار کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔مختار نے اس سے کہا : کیا تم اس سر کو پہچانتے ہو ؟ تو اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہاکہ اس کے بعد زندگی میں کوئی اچھا ئی نہیں ہے ! تو مختار نے کہا : تم اس کے بعد زندہ نہیں رہوگے ! اور حکم دیا کہ اسے بھی قتل کردیا جائے۔ اسے قتل کردیا گیا اور اس کا سر اس کے باپ کے ہمراہ رکھ دیا گیا۔ (. طبری ،ج ۶، ص ۶۱ )
[13] مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔( طبری ،ج ۵، ص ۴۵۲) 
[14] مختار نے اس کی طرف معاذ بن ہانی بن عدی کندی جناب حجر کے بھتیجے کو روانہ کیا،نیز اس کے ہمراہ ابو عمرہ ، اپنے نگہبانوں کے سردار کو بھی اس کی طرف بھیجا تو خولی اپنے گھر کی دہلیز میں جا کر چھپ گیا۔ ’’ معاذ‘‘ نے ابو عمرہ کو حکم دیا کہ اس کے گھر کی تلاشی لے۔ وہ سب کے سب گھر میں داخل ہوئے، اس کی بیوی باہر نکلی، ان لوگوں نے اس سے پوچھا : تیرا شوہر کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں نہیں جانتی اور اپنے ہاتھ سے دہلیز کی طرف اشارہ کردیا تو وہ لوگ اس میں داخل ہوگئے۔ اسے وہاں اس حال میں پایا کہ وہ اپنے سر کو کھجور کی ٹوکری میں ڈالے ہوئے ہے۔ ان لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور جلادیا۔( طبری، ج۶، ص ۵۹ )
[15] یہ حجر بن عدی کے خلاف گواہی دینے والوں میں سے ہے ۔(طبری ،ج۵،ص ۲۷۰) روز عاشوراعمربن سعد کے لشکر میں یہ قبیلہ مذحج و اسدکا سالار تھا جیسا کہ اس سے قبل یہ بات گزر چکی ہے۔ ( طبری، ج ۵، ص ۴۴۲ )
[16] شیخ مفیدؒ نے ارشاد کے ص ۲۴۱ پر لکھا ہے کہ وہ بچہ عبداللہ بن حسن تھا اورارشاد میں مختلف جگہوں پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابو مخنف کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ حرملہ بن کاہل اسدی نے تیر چلاکر اس بچہ کو شہید کردیا ۔ یہاں یہ روایت ابوالفرج نے ابو مخنف سے نقل کی ہے اور انھوں نے سلیمان بن ابی راشد سے اور اس نے حمید بن مسلم سے روایت کی ہے ۔(ص ۷۷ ،طبع نجف)
[17] گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ۵ ملاحظہ ہو ۔
[18] گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ۵ ملاحظہ ہو ۔
[19] گزشتہ صفحہ کا حاشیہ نمبر ۵ ملاحظہ ہو ۔
[20] ابو مخنف نے اپنی روایت میں بیان کیا ہے۔ ( طبری، ج۵،ص ۴۵۰ ) ابوالفرج نے ابومخنف سے سلیمان بن ابی راشد کے حوالے سے اوراس نے حمید بن مسلم سے روایت نقل کی ہے۔ (ص۷۷،طبع نجف )
[21] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشدنے حمید بن مسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔( طبری، ج۵،ص ۴۵۱وارشاد ،ص ۲۴۱ )
[22] ارشاد میں بایاں بازو ہے۔( ص ۲۴۲) تذکرۃ الخواص میں بھی یہی ہے۔( ص ۲۵۳ ) مقرم نے اسے الا تحاف بحب الاشراف سے نقل کیا ہے۔( ص ۱۶ )
[23] امام حسین کے قاتل کے سلسلے میں سبط بن جوزی نے پانچ اقوال ذکر کئے ہیں۔ آخر میں ترجیح دی ہے کہ سنان بن انس ہی آپ کا قاتل تھا پھرروایت کی ہے کہ یہ حجاج کے پاس گیا تواس نے پوچھا کہ تو ہی قاتل حسین ؑ ہے؟ اس نے کہا ہاں ! تو حجاج نے کہا : بشارت ہو کہ تواور وہ کبھی ایک گھر میں یکجا نہیں ہوں گے ۔ لوگوں کا کہنا ہے حجاج سے اس سے اچھا جملہ کبھی بھی اس کے علاوہ نہیں سناگیا۔ ا س کا بیان ہے کہ شہادت کے بعد حسین ؑ کے جسم کے زخم شمار کئے گئے تو ۳۳؍ نیزہ کے زخم اور ۳۴؍ تلوار کے زخم تھے اور ان لوگوں نے آپ کے کپڑے میں ایک سو بیس ( ۱۲۰) تیر کے نشان پائے ۔
[24] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید کے مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے( طبری ،ج۵، ص ۴۵۳)
[25] شب عاشور کی بحث میں اس کے احوال گزر چکے ہیں ۔
[26] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔ ( طبری، ج۵،ص ۴۵۵ )
[27] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے صقعب بن زہیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت کی ہے۔(طبری، ج۵، ص ۴۵۲ )
[28] ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے ر وایت کی ہے۔( طبری، ج۵،ص ۴۵۱ ) اسی طرح سبط بن جوزی نے بھی صرا حت کی ہے کہ وہ لوگ وہ سب کچھ لوٹ لے گئے جوآپ کے جسم پر تھا حتی یہ کہ’’ بحر بن کعب تمیمی‘‘ آپ کاپاجامہ بھی لے گیا۔ (طبری، ج۵،ص ۲۵۳) ارشاد میں شیخ مفیدؒ نے اضافہ کیا ہے کہ بحربن کعب لعنۃ اللہ علیہ کے دونوں ہاتھ اس واقعہ کے بعد گرمی میں سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوجاتے تھے اورسردی میں مرطوب ہوجاتے تھے اور اس سے بد بو دار خون ٹپکتا تھا یہاں تک کہ خدا نے اسے ہلا ک کردیا ۔(ص ۲۴۱ ، ۲۴۲ ).با تشکر از ابنا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰

حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے فرامین کی روشنی میں وحدت سے تمسک کریں: شیخ جعید

 ابلاغ:بین الاقوامی وحدت ڈپلومیسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمل اسلامی تحریک لبنان کے سربراہ شیخ زھیر جعید نے کہا ہے کہ آج جس چیز کا ہم دنیا میں مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صرف مذہبوں کے مابین جنگ نہیں ہے بلکہ اسلام کے خلاف عالمی سازش کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج استقامتی گروہوں نے اپنی ثابت قدمی سے اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کو برکنار کردیا ہے۔
شیخ جعید نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے فرامین کی روشنی میں وحدت سے تمسک کریں تاکہ کامیابی ہمارے شامل حال ہو۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ شیعہ اور سنی یک جان دو قالب ہیں کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اہل سنت اور اہل تشیع کی مشترکہ یونیورسٹیوں اور ٹی وی چینلز کی تاسیس کے لئے جدوجہد کریں کیونکہ ایسے بہت سارے چینلز موجود ہیں کہ جو فرقہ واریت اور وہابیت کے فروغ کے لئے سرگرم ہیں لہذا وحدت کے فروغ کے لے مشترکہ ٹی وی چینلز انتہائی ضروری ہیں۔
شیخ جعید نے کہا کہ ایران صرف ایک شیعہ ملک نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک اہم اسلامی ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰