انہوں نے کہا کہ ہم نے ایران کے مختلف شہروں میں اس ملک کے حکام سے جن اہم امور پر تبادلہ خیال کیا ہے، انہیں اپنی اپنی حکومتوں تک پہنچائیں گے اور ان مسائل پر ایک مرتبہ پھر مشاورت کریں گے، مجھے یقین ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود مسائل میں سے اکثر مسائل جلد از جلد حل ہوجائیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات تو الحمدللہ پہلے سے ہی بہتر ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ باہمی رابطے اور حکام کے دونوں ممالک کے دوروں سے موجود بعض مشکلات بھی جلد از جلد ختم ہوجائیں گی۔
دونوں ممالک کے حکام کی جانب سے بینکنگ چینلز کے آغاز اور روابط سازی سمیت گیس پائپ لائن منصوبے میں پیشرفت کے حوالے سے دعووں کے باوجود کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہ ہونے کے سوال پر مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض عالمی طاقتیں پاک ایران تعلقات میں پیشرفت کے خواہاں نہیں ہیں البتہ مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ دونوں ممالک مسلسل رابطے میں رہیں جس کے سبب تمام مشکلات حل ہوجائیں گے، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ امت مسلمہ کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، پس میں سمجھتا ہوں کہ مشکلات کا واحد حل رابطہ سازی اور مذاکرات ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاک ایران کے مشترکہ موقف کے بارے میں مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر نہایت سنگین اور قدیم مسئلہ ہے۔ بعض اسلامی ممالک جنہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر قرارداد کی حمایت بھی کی ہے لیکن بعد میں اپنے مفادات کی خاطر اس مسئلے کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں کشمیر کمیٹی نے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران کشمیر کاز کے حوالے سے کافی کام کیا ہے۔ ایران سمیت بہت سے دیگر ممالک بھی کشمیری عوام کی حق خودارادیت پر مبنی پاکستان کے معتدل موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا واضح موقف آج پوری دنیا پر واضح ہوگیا ہے جس پر ہمارا ملک ہمیشہ سے ثابت قدم رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ایران نے بھی پاکستان کے واضح اور معتدل موقف پر مہر تصدیق لگاتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
مولوی عبدالواسع کا افغانستان کیساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح آج بھی ہمسایہ ممالک کیساتھ روابط کو مستحکم بنانے اور اس پر قائم و دائم رہنے کا خواہاں ہے لیکن بعض اوقات ہمسایہ ممالک میں ایسے عناصر ابھر کر سامنے آتے ہیں جو پاکستان کے مضبوط اور مثبت موقف کے خلاف سازشوں پر اتر آتے ہیں لہذا حکومتوں کے درمیان جزوی طور پر مشکلات سامنے آتے ہیں بہرحال میرا خیال ہے کہ افغانستان پاکستان کے بغیر اپنے ملک میں امن برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی پاکستان افغانستان کے بغیر خطے میں امن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکتا ہے لہذا تعلقات کو جاری رکھنا اور اسے بہتر بنانا دونوں ملکوں کی مجبوری ہے خواہ وہ عقیدتی یا نظریاتی لحاظ سے ہو یا خطے میں امن برقرار رکھنے کے لحاظ سے۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کے رہنما نے امید ظاہر کی کہ انشاللہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے اور دونوں ممالک جلد ہی امن کا گہوارہ بن جائیں گے۔