صحیح بخاری، کتاب التفسیر
زہری نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ابو طالب جب قریب الموت ہوئے تو رسول ﷲصلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے جب کہ ابوجہل اور عبداللہ بن امیّہ وہاں موجود تھے۔ آپ نے فرمایا اے چچا کلمہ طیبہ لا الہٰ الا اﷲ پڑ ھ لیں تاکہ میں اس کے ذریعے آپ کا دفاع کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ وہ دونوں مسلسل ابوطالب سے یہی بات کہتے رہے ، یہاں تک کہ ابوطالب نے جو آخری بات انہیں کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر قائم ہوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے فرمایا کہ جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
(القرآن 9:113)نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ (مشرکین) اہلِ جہنم ہیں
اور پھر خاص یہ آیت ابو طالب کے لیے نازل ہوئی ۔
(القرآن 28:56) بلاشُبہ تم (اے نبی) نہیں ہدایت دے سکتے جسے چاہو لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔

سعید ابن مسیب کی یہ روایت تدلیس شدہ ہے:

1۔ یہ روایت سعید نے اپنے والد مسیب ابن حزن سے روایت کی ہے۔

مسیب اپنے باپ حزن کے ساتھ “فتح مکہ” کے بعد مسلمان ہوئے۔ جب حزن مسلمان ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے ان سے اپنا نام بدلنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اور اس وقت مسیب بہت کم سن تھے۔ سعید بن المسیب یہ بذات خود حضرت عمر کے وفات کے 2 سال بعد پیدا ہوئے تھے، یعنی 24 یا 25 ہجری میں۔

اس طرح یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے یا انکے والد نے حضرت ابو طالب کو بستر مرگ پر دیکھا ہو کیونکہ یہ اسکے دس گیارہ سال بعد اسلام لا رہے ہیں۔ اس روایت میں تدلیس ہے کیونکہ اصل عینی گواہ کا کچھ علم نہیں ہے۔

شبلی نعمانی اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ابن مسیب کی اس روایت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

مگر محدثانہ نقطہ نظر سے بخاری کی اس روایت کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اس پر یقین کیا جائے کیونکہ اسکا آخری راوی المسیب فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا۔ چنانچہ وہ ابو طالب کی وفات کے وقت موجود ہی نہ تھا۔ اسی وجہ سے علامہ عینی نے صحیح بخاری کی شرح میں اس روایت کو “مرسل” لکھا ہے۔

2۔ اور یہ روایت حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے، مگر یہ بھی گڑھی ہوئی ہےـ

ابو ہریرہ ایمان لائے ہیں مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات سے فقط ڈھائی یا تین سال پہلے۔۔۔۔۔ جبکہ جناب ابو طالب کا انتقال ہوا تھا مکی زندگی میں۔ چنانچہ ابو ہریرہ بھی دس گیارہ سال بعد مسلمان ہو کر مدینے آتے ہیں۔ چنانچہ یہ روایت بھی تدلیس شدہ ہے یا پھر حضرت ابو ہریرہ قیاس کی بنیاد پر بذاتِ خود اس آیت کو ابو طالب کی وفات سے جوڑ رہے ہیں۔

سورۃ براۃ (توبہ) کی یہ آیت وفات ابو طالب کے دس گیارہ سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اور جھوٹ بولنے کے لیے عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

جس شخص نے بھی یہ جھوٹی روایت گھڑی ہے، اسکے جھوٹ کا پردہ اللہ تعالی نے یوں فاش کیا ہے کہ اس روایت میں دعوی کیا گیا ہے کہ سورۃ براۃ کی آیت (9:113) ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی۔

یہ ناممکنات میں سے ہے۔

سورۃ برأۃ بالاتفاق جناب ابو طالب کی وفات کے کئی سالوں بعد مدینے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اسکی گواہی ہر قرآنی تفسیر میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری کی ہی دوسری روایت ہے:۔

البراء کہتے ہیں: آخری سورۃ جو نازل ہوا، وہ سورۃ براۃ تھی۔

حوالہ: صحیح بخاری، کتاب التفسیر

جتنی قرآنی تفاسیر ہیں، انہیں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو یہی نظر آئے گا کہ سورۃ براۃ جناب ابو طالب کی وفات کے دس گیارہ سال بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔

چنانچہ سعید بن المسیب کی تدلیس شدہ روایت اس لحاظ سے بھی احمقانہ حد تک مضحکہ خیز ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم وفاتِ جناب ابو طالب کے دس گیارہ سال بعد تک مسلسل انکی مغفرت کی دعا کرتے رہے، اور صرف دس گیارہ سال کے بعد اللہ کو (معاذ اللہ) اسکی ممانعت کرنا یاد آیا۔

لاحول ولا قوۃالا باللہ ………

سعید ابن مسیب کی متعارض روایت کے مقابلے میں دوسرے اہلسنت صحیح روایات کی گواہی

نہ صرف یہ کہ سعید ابن مسیب کی اس روایت میں وقتِ نزول کے حوالے سے تضاد ہے، بلکہ دیگر اہلسنت صحیح روایات بھی اسکے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔

پہلی روایت: علی ابن ابی طالب کی گواہی یہ آیت ابو طالب کے لیے نازل نہیں ہوئی

امام اہلسنت جلال الدین سیوطی تفسیر در منثور میں آیت 9:113 کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:

امام طیالسی، ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، نسائی، ابو یعلی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، اور امام حاکم اور انہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، ابن مردویہ، بیہقی نے شعب الایمان (باب فی مباعدۃ الکفار و المفسدین) میں اور ضیاء نے المختارہ میں حضرت علی ابن ابی طالب کا یہ قول بیان کیا ہے کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا تھا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے۔ تو میں نے کہا: کیا تو اپنے والدین کے لیے استغفار کر رہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) کے لیے استغفار نہیں کی تھی؟ سو میں نے اسکا ذکر حضور نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے کیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔

امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

اس روایت کے متعلق امام اہلسنت سید زینی دحلان لکھتے ہیں:۔

یہ حدیث صحیح ہے اور اسکے ثبوت میں ہمارے پاس ابن عباس کی ایک روایت موجود ہے جس کا مضمون یہ ہے:”لوگ اپنے باپ دادا کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تھے۔ حتی کہ سورہ توبہ کی زیر بحث آیت 113 نازل ہوئی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اپنے مشرک مردگان کے لیے استغفار کرنا ترک کر دیا لیکن اپنے زندہ مشرک عزیزوں کے لیے انکی زندگی تک استغفار کرنا نہ چھوڑا۔ تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:۔”اور ابراہیم کا اپنے چچا (آذر) کے لیے معافی کی دعا مانگنا ۔۔۔۔”
یعنی جب تک ابراہیم کے چچا (آذر) زندہ رہا، وہ اسکے لیے استغفار کرتے رہے، لیکن اس کے فوت ہو جانے کے بعد انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا اور۔۔۔۔”
یہ ایک سچی گواہی ہے اور جب یہ سابق الذکر روایت کی تائید کر رہی ہے تو پھر اس کی صحت یقینی ہو جائے گی اور اس پر لازما عمل کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس پہلی روایت کا واضح مطلب یہ ہے کہ آیت استغفار جس پر بحث ہو رہی ہے، وہ ابو طالب کے بارے میں نہیں بلکہ عام لوگوں کو اپنے مشرک اجداد کے لیے استغفار کی ممانعت کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔

اور امام جلال الدین سیوطی تفسیر در منثور میں آیت 9:113 کے تحت پہلے عطیہ عوفی سے ابن عباس کی ایک روایت لاتے ہیں، اور پھر خود اسکا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی یہ والی روایت صحیح ترین ہے جبکہ عطیہ عوفی والی ضعیف ہے۔ مکمل تحریر یوں ہے:

تفسیر در منثور، تفسیر آیت 9:113، علامہ جلال الدین سیوطی:

امام ابن جریر نے عطیہ العوفی کی سند سے ذکر کیا ہے ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنے باپ (چچا) کی مغفرت کا ارادہ فرمایا تو اللہ نے اس سے منع کر دیا۔۔۔ میں (یعنی صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ یہ اثر ضعیف اور معلول ہے کیونکہ عطیہ ضعیف راوی ہے۔ اور یہ روایت علی بن ابی طلحہ عن ابی عباس والی سابقہ روایت کے خلاف ہے۔ وہ روایت اصح ہے اور علی بہت ثقہ راوی ہیں۔

سعید ابن المسیب کی تدلیس شدہ روایت کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب وفاتِ ابو طالب کے وقت موجود تھے، ہر بات کے چشم دید گواہ تھے، اور آپ اسکے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ یہ آیت کب اور کس شخص کے مشرک والدین کے لیے نازل ہوئی۔

اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ سعید ابن مسیب کی اس تدلیس شدہ روایت کو تسلیم کریں، یا پھر علی ابن ابی طالب جیسے جلیل القدر صحابی کی گواہی کو تسلیم کریں جو کہ ہر دو موقعوں(یعنی وفات ابو طالب اور اس آیت کے دوسرے موقع پر نازل ہونے) کے چشم دید گواہ ہیں اور مدینۃ العلم ہیں۔ ساتھ میں ابن عباس بھی ہیں کہ جن کو ہم اہلسنت “امام المفسرین” “حبر الامۃ” کا خطاب دیتے ہیں۔

سعید ابن مسیب کی روایت میں مزید تضادات

اوپر جو کچھ ہو چکا ہے، وہ کافی ہے کہ سعید ابن مسیب کی تدلیس شدہ روایت کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب کی اصح روایت کو قبول کیا جائے۔ مگر ریکارڈ کے لیے بیان ہے کہ سعید ابن مسیب کی اس روایت میں مزید کئی تضادات اور سقم ہیں۔ مثلا:

1۔ علی ابن ابی طالب سے ہی ایک جھوٹی روایت منسوب کر دی گئی کہ آیت 9:113 وفاتِ ابو طالب کے کچھ دن بعد نازل ہوئی۔
یہ روایت الٹا جا کر مخالفین کے ہی گلے پڑ گئی کہ علی ابن ابی طالب کیسے ایک ہی آیت کے نزول کے دو وقت بیان کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ان میں سے صرف ایک درست ہے جبکہ دوسرا علی ابن ابی طالب پر گھڑا ہوا جھوٹ ہے۔
یہ بالکل ویسا ہی ہے کہ جس کا ذکر امام اہلسنت جلال الدین سیوطی نے اوپر کیا ہے کہ ابن عباس سے اوپر علی ابن طلحہ والی روایت اصح طریقے سے آئی، تو دشمنان اہل بیت نے انہی ابن عباس کے نام سے جھوٹی روایت گھڑ دی کہ یہ روایت وفات ابو طالب کے وقت نازل ہوئی۔

2۔ اس آیت 9:113 کے نزول کے متعلق فقط یہ دو زمانے ہی نہیں پائے جاتے، بلکہ اہلسنت کی حدیث کی کتب اور ابن کثیر اور تمام مفسرین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے وفات کے سالہا سال بعد اُس وقت نازل ہوئی جب غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اپنی والدہ آمنہ کی قبر پر گئے۔

امام حاکم، طبری، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ابن مسعود کے طریقے سے جبکہ بریدہ، طبرانی، ابن مردویہ اور طبری نے عکرمہ کے طریقے سے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
“جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آئے تو آپ نے عمرہ ادا کیا اور پھر اپنی والدہ کی قبر پر گئے۔ تب آپ نے اللہ تعالی سے ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی اور یہ تمنا بھی کی کہ وہ آپ کو قیامت کے دن انکی شفاعت کرنے کی اجازت بھی دے۔ لیکن خدا تعالی آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی یہ دونوں دعائیں قبول نہ فرمائیں اور اس وقت آیت استغفار (سورۃ توبہ آیت 113) نازل ہوئی۔”

یہ روایت بھی زمانہ نزول کے اعتبار سے سعید بن المسیب کی روایت کو جھٹلا رہی ہے۔ مگر مخالفین کو چونکہ جناب ابو طالب کو کافر ثابت کرنا ہے، اس لیے ان بقیہ روایات کو چھوڑ کر سعید ابن مسیب کی تدلیس(منسوب) شدہ روایت کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں۔

3۔ اس آیت کے نزول کے وقت کے متعلق فقط یہ تین مختلف روایات ہی نہیں، بلکہ اسی مضمون کی مزید 18 اہلسنت کی روایات موجود ہیں ـ
جن کو احادیث و روایات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمیں نہ ان پر تنقید و تبصرہ کرنا ہے اور نہ ان کے متعلق کوئی فیصلہ دینا ہے، ہمارا مقصد تو فقط یہ واضح کرنا ہے کہ آیت کے نزول کے بارے میں کتنا شدید اختلاف اور کتنا عظیم تعارض ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ آیت کو اسکے مرکز سے ہٹانے کے لیے کتنے ہتھکندے روئے کار لائے گئے ہیں ـ اور عظمت اہلبیت خصوصا محسن اسلام جناب ابوطالب کو داغدار بنانے کی مکمل کوشش کی گئی ہےـ

4۔ امام اہلسنت علامہ زمخشری کو بھی ان تضادات کا احساس تھا اس لیے وہ تحریر فرماتے ہیں:

اس آیت کا رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی والدہ کے متعلق نزول کا قول صحیح ہے کیونکہ ابو طالب کی وفات ہجرت سے قبل واقع ہو گئی تھی جبکہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ (حوالہ: تفسیر کشاف، تفسیر آیت 9:113۔۔۔۔ اور تفسیر بیضاوی)

ہم تو اسکے قائل نہیں کہ یہ آیت رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی والدہ کے لیے نازل ہوئی ہو۔ مگر یہاں انکے قول کو نقل کر کے فقط ابن مسیب (کی جانب منسوب) روایت میں ان تضادات کو دکھانا مقصود ہے کہ امام اہلسنت علامہ زمخشری بھی اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے کہ مدینہ میں نازل ہونے والے اس آخری سورہ کی آیت کو پکڑ کر مکی زندگی میں فوت ہونے والے جنابِ ابو طالب پر زبردستی جڑ دیا جائے۔

5۔ امام اہلسنت علامہ قسطلانی کہتے ہیں کہ:

تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اپنی والدہ کی قبر پر آئے اور استغفار کرنا چاہا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔۔۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد نازل ہوئی ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل نہیں ہوئی ہے۔ (حوالہ: ارشاد الساری از قسطلانی، جلد 7، صفحہ 270)

6۔امام اہلسنت اور مایہ ناز مفسر امام قرطبی اس آیت کے ذیل میں حسین ابن فضل کے قول کو درست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

وقال الحسین بن الفضل: وهذا بعید؛ لأن السورة من آخر ما نزل من القرآن، ومات أبو طالب فی عنفوان الإسلام والنبیّ صلى الله علیه وسلم بمکة.

ترجمہ:

… اور حسین بن فضل کہتے ہیں: اس آیت کا جناب ابو طالب کے بارے میں نازل ہونا ایک بعید بات ہے۔ کیونکہ یہ سورہ توبہ میں ہے جو قرآن مجید میں نازل ہونیوالے آخری سوروں میں سے ہے، جبکہ ابو طالب اسلام کے ابتدائی دور میں ہی فوت ہو گئے تھے اور اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ابھی مکہ میں ہی تھے۔

کیا آیت 9:113 رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی والدہ کے لیے نازل ہوئی (معاذ اللہ)

بہتر ہے کہ ان مخالفین کے ایک اور تضاد کو واضح کر دیا جائے تاکہ لوگ گمراہی سے بچ سکیں۔

ان مخالفین کا دعوی ہے کہ مکہ میں ابو طالب کی وفات کے وقت یہ آیت نازل ہوئی:

(القرآن 9:113)نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ اہلِ جہنم ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پھر کیوں اس آیت کے نزول کے سالہا سال بعد تبوک کے وقت اپنی مشرکہ والدہ (معاذ اللہ) کے لیے استغفار کی اجازت مانگ رہے ہیں؟ کیا یہ بات رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی شان کے لائق ہے؟

ان مخالفین نے تو وہ توہینِ رسالت مچا رکھی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو ایک عام مومن کی شان سے بھی کم کر دیا ہے۔ اللہ صاف صاف فرما چکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اور مومن کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے استغفار کریں۔

مزید طرہ یہ کہ استغفار کی ممانعت کے بعد بھی معاذ اللہ رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) باز نہیں آتے اور اپنی مشرکہ والدہ کے لیے شفاعت کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ لاحول ولا قوۃالا باللہ…..

سچ ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

اہلبیت کے دشمنوں کی جانب سے سے نہ صرف ابو طالب، بلکہ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے والدین کو بھی کافر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا، اور نتیجہ نکلا ایسی بے ہودہ روایات کی صورت میں جس میں کھل کر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین کر کے انہیں ایک عام مومن کی شان سے بھی نیچے گرا دیا گیا۔

اس موقع پر چند قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جو سب کی سب تبوک کے واقعے سے پہلے کی ہیں:

(سورۃ المجادلہ، آیت 22) جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے، اگرچہ کہ وہ انکے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ کیوں نہ ہوں۔ یہی وہ گروہ مومنین ہے جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو ثابت کر دیا ہے اور خاص اپنی روح سے انکی تائید کی ہے۔

ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم، ابو نعیم، بیہقی، ابن کثیر، شوکانی اور آلوسی نے نقل کیا ہے:

“بعض تفاسیر کے مطابق سورہ مجادلہ کی یہ آیت ہجرت کے دوسرے سال میں جنگ بدر کے دن نازل ہوئی تھی، جبکہ سیرت حلبیہ کے مطابق مؤرخین اور مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیت ہجرت کے تیسرے سال میں جنگ احد کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔”

سورۃ النساء، آیت 144:

“اے ایمان والو! مومنوں کی بجائے کافروں کو اپنا سرپرست اور دوست نہ بناؤ۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا ایک صریح الزام قائم کر لو؟”

یہ آیت سورہ نساء میں آئی ہے جو مکی سورۃ ہے۔ امام قرطبی کے مطابق سورہ نساء ہجرت کے ابتدائی سالوں میں مدینہ میں نازل ہوئی۔

سورۃ المنافقون، آیت 6:

(القرآن، سورۃ المنافقون، آیت 6) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خدا انہیں ہرگز بخشنے والا نہیں۔”

یہ آیت سورہ منافقون میں ہے اور اسکے حکم میں منافق اور کافر دونوں شامل ہیں۔ اور جیسا کہ سیرت رسول اور غزواتِ پیغمبر کی کتابوں کے مؤلفین میں مشہور ہے کہ یہ سورہ ہجرت کے چھٹے سال میں غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر نازل ہوا۔ یہی بات ابن کثیر نے بھی نقل کی ہے اور امام قرطبی نے بھی۔

ایمان والوں کے لیے سبق پورا ہے کہ وہ دیکھ سکیں کہ دشمنان اہلبیت کی جانب سے گھڑی گئی ان بیہودہ روایتوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وہ توہین کی ہے کہ جس پر ایمان والے ان بیہودہ باتوں پر فقط منہ پھیر کر لاحول پڑھتے ہوئے گذر جائیں۔

راقم
محمد شفیق حنفی
خادم مجلس شرعی ممبئ

منبع:
https://onlineifta.wordpress.com/