اسی طرح اِس میں بھی شک نہیں ہے کہ قرآنِ کریم اسلام کا ایسا بنیادی دستورُ العمل ہے جس میں اسلام کے کلی مسائل بیان کئے گئے ہیں اور اپنے بہت سے حقائق اور جزئیات کو پیغمبر اکرم(ص) اور آپؐ کے برحق جانشینوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبرِ اکرم(ص) کا تعارُف مفسِّر قرآن کے طور پر کروایا گیا ہے:’’ ... وَ أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ ...‘‘[1]؛ ’’... اور ہم نے اِس ذکر (قرآن) کو آپؐ پر نازل کیاہے تاکہ آپؐ لوگوں کے لیے وہ سب کچھ بیان کریں جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے ...۔‘‘


اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں افراد کو متعارف کروانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں:


الف: نام کے ذریعے: ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَ لَکِن رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّینَ ...‘‘[2]؛

’’محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ...۔‘‘


ب: صفت کے ذریعے: ’’الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَهُ مَکْتُوباً عِندَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِیلِ یَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَ یَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبَاتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَ الأَغْلاَلَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْهِمْ ...‘‘[3]؛

’’جو لوگ رسولِ نبی امّیؐ کی اتّباع کرتے ہیں کہ جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا اور بُرائیوں سے رُوکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کو اُن کے لیے حلال قرار دیتا اور خبیث چیزوں کو اُن پر حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے احکام کے سنگین بوجھ کو اور جس قید و بند میں وہ گرفتار تھے وہ اُن سے اُٹھا دیتا ہے ...۔‘‘


ج: عدد کے ذریعے: ’’وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَآئِیلَ وَ بَعَثْنَا مِنهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیباً ...‘‘[4]؛

’’اور بےشک خداوندِ متعال نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے انہیں میں سے بارہ نقیب بھیجے ...۔‘‘


 اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت امام مہدی (عج) کا نام قرآنِ کریم میں صراحت سے ذکر ہوا ہے یا نہیں؟


جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں امامِ زمانہ حضرت امام مہدی (عج) کا نام صراحت سے مذکور نہیں ہے، کیونکہ صراحت سے نام کا ذکر نہ ہونا ایسی مصلحتوں کی وجہ سے ہے کہ جن کا علم صِرف خداوندِ متعال کے پاس ہے۔ البتہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر امام مہدی (عج) یا دوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام کا نام قرآنِ کریم میں واضح طور پر ذکر ہوتا تو کتابِ الٰہی تحریف کے خطر ے سے دُچار ہو جاتی۔ علاوہ ازیں حقائق کو بیان کرنے کا واحد راستہ، صِرف نام کے وضاحت سے ذکر کرنے میں منحصر نہیں ہے، بلکہ بہت سے مقامات پر ایک حقیقت کا تعارُف کروانے کے لیے اُس کی صفات و خصوصیات کو بیان کر دیا جاتا ہے۔


قرآنِ کریم نے بھی مسئلۂ امامت و ولایت، نیز مہدویت اور حضرتؑ کی عدل و انصاف پر مبنی عالمی حکومت کو اسی روش کے تحت بیان کیا ہے اور متعدّد آیات میں پیغمبر کے بعد مسئلۂ ولایت اور امام مہدی (عج) کی عالمی حکومت کو انہیں صفات اور خصوصیات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ مفسرینِ قرآن نے پیغمبراکرم(ص) اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے تقریباً ۲۵۰ سے زائد ایسی آیات ذکر کی ہیں جن کی تفسیر و تاویل حضرت امام مہدی (عج) کے بارے میں بیان کی گئی ہے۔ اِن میں سے بعض آیات درج ذیل ہیں:

 

۱۔ ’’وَ لَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ‘‘[5]؛

’’اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ بےشک (ہماری) زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔‘‘


حافظ سلیمان قندوزی حنفی اِس آیت کی تفسیر میں اپنی اَسناد سے حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے نقل کرتے ہیں کہ اِس آیت میں عبادِ صالح سے مراد حضرت مہدیؑ اور آپؑ کے اصحاب ہیں۔[6]

 

۲۔ ’’بَقِیَّةُ اللَّهِ خَیْرٌ لَّکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِینَ وَ مَا أَنَاْ عَلَیْکُم بِحَفِیظٍ‘‘[7]؛

’’اللہ کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم صاحبانِ ایمان ہو اور میں تمہارے معاملات کا نگران اور ذمہ دار نہیں ہوں۔‘‘


حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سےسوال ہوا کہ اِس آیت میں ’’بَقِیَّةُ اللَّهِ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ امامؑ نے فرمایا: ’’اولیائے خدا ’’بقیۃُ اللہ‘‘ ہیں اور مقصود حضرت مہدی (عج) ہیں جو اس مہلت کے ختم ہونے کے وقت آئیں گے اور زمین کو اِسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جَور سے بھر چکی ہو گی اور اُن کی نشانیوں میں سے ایک اُن کا غائب ہونا ہے ...۔[8]

 

۳۔ ’’قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ‘‘[9]؛

’’(اے رسولؐ) کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس منزلِ مقصود تک پہنچانے والی دلیلیں ہیں پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کر دیتا۔‘‘


حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خواہرِ گرامی جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں: جب حضرت مہدی (عج) متولِّد ہوئے تو میں انہیں اپنے بھائی امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لے گئی۔ حضرتؑ نے اپنے دستِ مبارک سے ان کا چہرہ مس کیا اور فرمایا: ’’اے حجۃُ اللہ اور اے بقیۃُ اللہ! گفتگو کریں ...۔‘‘ حضرتؑ کی انگشترِ مبارک کا نقش بھی ’’أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ‘‘ اور ایک دوسری روایت کے مطابق ’’أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ وَ خَالِصَتُهُ‘‘ ہے۔[10]

 

۴۔ ’’... فَانتَظِرُواْ إِنِّی مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِینَ‘‘[11]؛

’’... پس انتظار کرو بےشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘


 ایک شخص نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے حضرت امام مہدی (عج) کے منتظَر ہونے کے بارے میں دلیل پوچھی تو حضرتؑ نے فرمایا: ’’انہیں اس لیے منتظَر کہتے ہیں کہ اُن کی غیبت کا عرصہ بہت طولانی ہو گا، اُن کے مخلص پیروکار بےشمار سختیوں کے باوجود طولانی مدت تک اُن کا انتظار کریں گے، درحالانکہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو شک و تردید کرتے ہوئے اُن کے قیام اور ظہور کا انکار کریں گے۔‘‘[12]

 

۵۔ ’’وَ نُرِیدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ‘‘[13]؛

’’اور ہم نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ جو افراد زمین پر کمزور بنا دیئے گئے ہیں اُن پر اس طرح سے احسان کریں کہ اُنہیں لوگوں کا امام اور وارث قرار دیں۔‘‘


یہ آیت نزول کے اعتبار سے بنی اسرئیل، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے قصّے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اِس آیت میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ خدا کا ارادہ ہے کہ مستکبرین ختم ہو جائیں اور خداوندِ متعال کے کمزور و ناتوان اور صالح بندے زمین کے وارث قرار پائیں اور ساری دنیا پر حکومت کریں۔


امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اِس آیتِ کریمہ کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد، بہرحال ایک دن ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اُونٹنی کو اپنے بچے پر رحم آ جاتا ہے۔‘‘[14]

اِس کے بعد آپؑ نے اِس آیتِ شریفہ: ’’وَ نُرِیدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ‘‘ کی تلاوت فرمائی۔


شارحِ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدمعتزلی اِس بارے میں لکھتے ہیں: ہمارے دینی اور ہم فکر بزرگ تصریح کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علیؑ کا یہ بیان ایک ایسے بزرگ امام اور پیشوا کے آنے کی خوشخبری ہے کہ جو زمین و زماں کا فرمانروا ہو گا اور تمام ملکوں پر اس کی حکمرانی ہو گی ...۔[15]


نیز امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’هُمْ آلُ مُحَمَّدٍ یَبْعَثُ اللَّهُ مَهْدِیَّهُمْ بَعْدَ جُهْدِهِمْ فَیَعِزُّهُمْ وَ یَذَلُّ عَدَوَّهُمْ‘‘[16]؛ ’’وہ آل محمدؑ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مہدیؑ کو ان پر آنے والی سختیوں کے بعد مبعوث کرے گا، وہ انہیں عزّت دے گا اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے گا۔‘‘


اگر ہم تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اِس آیت کے سب سے کامل مصداق اہلِ بیتِ رسولﷺ ہیں کہ جن پر بےشمار مظالم ڈھائے گئے اور انہیں مستضعف و ناتواں کیا گیا۔ پس اِس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اِس کرۂ زمین پر وہ وقت آ کر رہے گا کہ جب اِس پر اہل بیتِ رسولﷺ کی مکمل حکمرانی ہو گی اور تمام لوگ انہیں اپنا پیشوا اور ہادی تسلیم کریں گے۔


نتیجۂ بحث یہ کہ عقیدۂ مہدویت، اصل میں قرآنِ کریم و سنّتِ حسنہ کی حقانیت اور اِن میں دیئے گئے وعدوں کی سچائی کا دوسرا نام ہے۔


[1]. سورۂ نحل، آیت۴۴


[2]. سورۂ احزاب، آیت۴۰


[3]. سورۂ اعراف، آیت۱۵۷


[4]. سورۂ مائدہ، آیت۱۲


[5]. سورۂ انبیاء، آیت۱۰۵


[6]. ملاحظہ فرمائیں: موعودِ قرآن، حسینی شیرازی، ترجمۂ مؤسسۂ امام مہدیؑ، ص۷۵، طبع ۱۳۶۰شمسی (نقل از عقد الدُّرر، مقدّس شافعی، باب۷، ص۲۱۷)


[7]. سورۂ ہود، آیت۸۶


[8]. بحار الانوار، علامہ محمد باقر مجلسیؒ، ج۹۳، ص۱۰۶


[9]. سورۂ انعام، آیت۱۴۹


[10]. النجم الثاقب فی احوال الامام الحجۃ الغائب، میرزا حسین ابن محمد تقی نوری طبرسیؒ، بابِ دوم؛ فرہنگِ الفبائی مہدویت، مجتبیٰ تونہ ای، ص۱۷۱


[11]. سورۂ اعراف، آیت۷۱؛ سورۂ یونس، آیت۱۰۲


[12]. بحار الانوار، علامہ محمد باقر مجلسیؒ، ج۵۱، ص۳۰؛ فرہنگِ الفبائی مہدویت، مجتبیٰ تونہ ای، ص۶۹۹


[13]. سورۂ قصص، آیت۵


[14]. نہج البلاغہ، امام علی علیہ السلام، کلماتِ قصار نمبر۲۰۹


[15]. شرح نہج البلاغہ، عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی، ج۱۹، ص۲۹


[16]. الغیبۃ، ابو جعفر محمد ابن حسن (شیخ طوسیؒ)؛ (نقل از تفسیر نور الثقلین، عبد علی ابن جمعہ عروسی حویزی، ج۴، ص۱۱)

(با تشکر از سید فخرالدین)